ذکر قلبی (دل کی دھڑکنوں سے اللہ اللہ کرنا)
Wed Apr 10 2024ذکر قلبی (دل کی دھڑکنوں سے اللہ اللہ کرنا)
ہمارے جسم کے اندر تقریبا ساڑھے تین کروڑ نسیں ہیں جب ہم دل کی دھڑکنوں سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو ذکر اللہ کا نور خون سے ہوتا ہوا نس نس میں چلا جاتا ہے
حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ جب تیرا دل ایک دفعہ اللہ کہے گا ساڑھے تین کروڑ نسیں اﷲ کے ذکر سے گونج اُٹھیں گی اور تجھے ساڑھے تین کروڑ اللہ کرنے کا ثواب ملے گا
حضرت سخی سلطان حق باہو فرماتے ہیں اگر کسی کا دل ایک دفعہ اللہ کا ذکر کرے تو، یہ جو مسام ہیں جہاں سے پسینہ آتا ہے یہ بہتر ہزار ہوتے ہیں ۔ دل نے ایک دفعہ اللہ کا ذکر کیا 72 ہزار مساموں سے ذکر الله کی 72 ہزار آوازیں جسم سے باہر نکلیں، اس طرح 72 ہزار ظاہری قرآن پاک کا ثواب مزید ملتا ہے۔
انسان کے اندر ریڈ بلڈ سیلز (آر بی سی) ہوتے ہیں یہ تقریبا" 25 ٹریلین کے قریب ہوتے ہیں یہ بھی اللہ اللہ کرنا شروع کر دیتے ہیں
جب آپ کا دل ذاکر ہوگیا تو سوتے جاگتے، کھاتے پیتے ہر وقت دل ذکر اللہ، اللہ، اللہ، کرتا رہے گا اور اس طرح آپکو اللہ کے ذکر کا اتنا ثواب ملے گا جس کا شمار ہی نہیں کیا جاسکتا
لیکن ذکر قلب کی اس روحانی دولت کو حاصل کرنے کے لئے کسی مرد کامل سے اس ذکر قلب کی اجازت(اذن) درکار ہوتی ہے ۔ اگر آپ یہ قلبی دولت حاصل کرنا چاھتے ہیں تو ان لوگوں کے پاس بیٹھیں جنکا دل اللہ کا ذکر کرتا ہے ۔ انشااللہ وہ آپ کو بھی ذکر کرنے کا طریقہ سکھائیں گے یا کوئی ایسا مرشد کامل تلاش کریں . جسکی نگاہ کیمیا سے آپکا دل بھی الله کا ذکر کرنے لگ جائے ۔ ذکر قلب کے بعد آپ کو ایک نئی زندگی ملے گی جو کہ حقیقی زندگی ہے اور گناہوں سے نفرت ہو جائے گی نماز و عبادات میں سکون و سرور ملے گا اور اطمینان قلب حاصل ہو جائے گا ... انشاءاللہ تبارک تعالیٰ
🌹 مقام اور حال کا فرق
حال اس معنی کو کہتے ہیں جو حق تعالیٰ کی طرف سے بندے کے دل پر طاری ہو اور اسے وہ اپنے قدرت و اختیار سے دور نہ کرسکتا ہو اور نہ کسی محنت و مجاہدے سے حاصل کر سکتا ہو مطلب یہ کہ جب دل میں آئے تو دور نہ کرسکے اور نہ آئے تو وہ لا نہ سکے لہٰذا بارگاہ الہی میں ریاضت و مجاہدے کے ذریعہ محل ریاضت اور اس کے درجہ میں طالب کی راہ اور اسکی جائے اقامت کا نام مقام ہے ۔ جیسے پہلا مقام توبہ ہے اس کے بعد انابت پھر زبد پھر توکل وغیرہ وغیرہ مطلب یہ ہے کہ یہ جائز نہیں کہ بغیر توبہ کئے انابت میں پہنچ جائے یا بغیر انابت کے زہد حاصل کرلے یا بغیر زہد کے توکل مل جائے اور جو کیفیت بغیر ریاضت و مجاہدے کے دل پر وارد ہو وہ اللہ تعالیٰ کا لطف و فضل ہے اس کا نام حال ہے . اسی لحاظ سے مقام اعمال کی قبیل سے ہے اور حال اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اسکی عطا کے زمرے میں ہے گویا مقام اول تا آخر کسبی ہے اور حال وہبی ہے لهذا صاحب مقام اپنے مجاہدے میں قائم اور صاحب حال اپنے وجود میں فانی ہے اور وہ اس حال کے ساتھ قائم ہے جسے حق تعالیٰ نے اسکے دل میں پیدا فرمایا ہے (کشف المحبوب)Show more